حوزہ نیوز ایجنسی| مسلم پرسنل لا بورڈ کے معتبر ترجمان مولانا سجاد نعمانی، ہندوستان میں اسلامی تعلیمات اور مسلم معاشرتی قوانین کے ایک معتبر اور باشعور رہنما کے طور پر جانے جاتے ہیں، مولانا نعمانی کی شخصیت، ان کے خیالات، اور گہری بصیرت نے انہیں اس تنظیم میں ایک نمایاں مقام دیا ہے، اور وہ عوام میں اسلامی تشخص کو مضبوط بنانے کے حوالے سے اہم کردار ادا کر رہے ہیں، عرب ممالک کی حالیہ پالیسیوں خاص طور پر فلسطین کے مسئلے اور اسرائیل کے ساتھ ان کے تعلقات کے سلسلے میں ملت ٹائمز کو دئے گئے ان کے ایک بصیرت افروز انٹرویو کو حوزہ نیوز ایجنسی کے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے:
میزبان: ناظرین، السلام علیکم! آج ہمارے ساتھ موجود ہیں مولانا سجاد نعمانی صاحب، جو کہ اسلامی دنیا میں ایک معروف عالم دین ہیں۔ مولانا کو ان کے علمی کمالات، مذہبی خدمات، اور دینی معاملات پر بے باکی سے اظہارِ خیال کے لیے جانا جاتا ہے۔ آج ہم ان سے عرب ممالک کی حالیہ پالیسیوں پر بات کریں گے، خاص طور پر فلسطین کے مسئلے اور اسرائیل کے ساتھ ان کے تعلقات کے بارے میں۔
مولانا، آپ کا خیر مقدم ہے!
مولانا سجاد نعمانی: وعلیکم السلام، بہت شکریہ، آپ نے اس اہم موضوع پر بات کرنے کا موقع دیا۔
میزبان: آپ نے حالیہ دنوں میں دیکھا ہوگا کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان تناؤ بڑھ رہا ہے اور ایران اکیلا ملک ہے جو مزاحمتی قوتوں کا ساتھ دے رہا ہے، جبکہ دوسری جانب عرب ممالک کی جانب سے خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ کچھ ممالک تو اسرائیل کی حمایت میں بھی نظر آرہے ہیں، جیسے کہ سعودی عرب کے اخبارات نے حال ہی میں فلسطینی رہنما یحییٰ سنوار کی شہادت پر جشن منایا۔ آپ اس صورتحال کو کیسے دیکھتے ہیں؟
مولانا سجاد نعمانی: دیکھئے، یہ بات اب چھپی ہوئی نہیں ہے کہ سعودی عرب اور امارات جیسے ممالک اسرائیل کے ساتھ تعلقات بڑھا رہے ہیں۔ یہ تعلقات محض سیاسی یا سفارتی نہیں ہیں، بلکہ ان کے اندر گہرائی میں ایک ذہنی ہم آہنگی ہے جو کھل کر سامنے آ رہی ہے۔ سعودی عرب کے اخبارات کی جو خبریں آئیں، ان میں فلسطینی رہنما کے بارے میں جس قسم کی زبان استعمال کی گئی، وہ انتہائی افسوسناک ہے۔ اسرائیلی میڈیا نے بھی شاید اتنی شدت سے یہ الفاظ استعمال نہیں کیے ہوں گے۔ یہ عرب ممالک اسرائیل کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہو کر فلسطین کے مسئلے کو نظر انداز کر رہے ہیں، اور یہ نہ صرف امتِ مسلمہ کے ساتھ بلکہ اپنی عوام کے ساتھ بھی غداری ہے۔
میزبان: آپ کا مطلب ہے کہ عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ کھل کر کھڑے ہیں، یہ کیوں ہو رہا ہے؟ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ان کی حکومتیں اسرائیل کی حمایت کر رہی ہیں؟
مولانا سجاد نعمانی: جی ہاں، بالکل یہی بات ہے۔ عرب ممالک، خاص طور پر سعودی عرب اور امارات کی حکومتیں اب اسرائیل کی حمایت میں کھل کر سامنے آ رہی ہیں۔ اور یہ جو حقیقت ہے، یہ اب چھپی ہوئی نہیں رہی۔ اگر آپ ان کے میڈیا اور حکام کے بیانات پر نظر ڈالیں تو صاف دکھائی دیتا ہے کہ یہ لوگ اسرائیلی بیانیے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ میں نے اس سے پہلے بھی کہا ہے اور آج بھی یہی کہتا ہوں کہ جو کچھ ان ممالک کے حکمران کر رہے ہیں، وہ دراصل امریکی اور اسرائیلی مفادات کو پورا کر رہا ہے۔ ان حکمرانوں نے شاید خود کو اسرائیل کا وفادار سمجھ لیا ہے، اور یہ ان کے طرزِ عمل سے صاف ظاہر ہے۔
میزبان: لیکن مولانا صاحب، جب ہم علماء کی بات کرتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ سعودی عرب اور امارات کے علماء اس معاملے پر خاموش ہیں؟
مولانا سجاد نعمانی: وہاں کے علماء میں جو بھی حکومت کی پالیسی کے خلاف بولتا ہے، اسے جیل میں ڈال دیا جاتا ہے۔ خوف اور جبر کا ایسا ماحول بنا دیا گیا ہے کہ کوئی عالم دین ایک ٹویٹ تک نہیں کر سکتا۔ بلکہ آپ سوچیں کہ وہاں کے بڑے علماء میں سے ایک نے محض فلسطین کے حق میں دعا کی تھی اور اس کے نتیجے میں انہیں جیل میں ڈال دیا گیا۔ یہ صورتحال اس حد تک خراب ہے کہ کوئی شخص اپنی رائے دینے کا حوصلہ نہیں کر پاتا۔ اس ماحول میں کسی خیر کی توقع سعودی یا امارات کی حکومتوں سے کرنا بے سود ہے۔
میزبان: مولانا صاحب، آپ نے ایران کی طرف بھی اشارہ کیا۔ ایران اور اسرائیل کے درمیان اس وقت جو کشیدگی ہے، اسے آپ کیسے دیکھتے ہیں؟
مولانا سجاد نعمانی: میں دعا کرتا ہوں کہ ایران اسی طرح اسرائیل کے خلاف پوری طاقت سے ڈٹا رہے۔ ایران اس وقت وہ واحد ملک ہے جو فلسطینی کاز کے لیے کھڑا ہے، اور اگر یہ ثابت قدمی برقرار رہی تو انشاءاللہ، حالات بہتر ہوں گے۔ میری دعا ہے کہ ایرانی قیادت اسلام کے حقیقی وفادار بن کر کام کریں، اور ہمیں یہ امید رکھنی چاہیے کہ امتِ مسلمہ کے تمام طبقات، بشمول شیعہ اور سنی، ایک ہوں گے۔
میزبان: آپ کے خیال میں شیعہ اور سنی اتحاد ممکن ہے؟
مولانا سجاد نعمانی: بالکل، میں اس بات پر پختہ یقین رکھتا ہوں کہ آنے والے وقت میں شیعہ اور سنی اختلافات ختم ہوں گے۔ ہمارے بڑے علماء نے اس کی پیشنگوئی کی ہے کہ امام مہدی (عج) کے ظہور کے وقت امت مسلمہ ایک ہو جائے گی۔ یہ اتحاد اس وقت ہوگا جب امام مہدی (عج) حقیقی معنوں میں دنیا کے سامنے آئیں گے، اور اس وقت امتِ مسلمہ ایک مضبوط اور متحد قوت کے طور پر سامنے آئے گی۔ اس اتحاد کی بدولت ہم دوبارہ اپنی کھوئی ہوئی عزت اور طاقت حاصل کریں گے۔
میزبان: مولانا صاحب، یہ بہت ہی امید افزا بات ہے۔ آپ کی گفتگو سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ اللہ آپ کو سلامت رکھے اور آپ کی کوششوں کو قبول فرمائے۔